سب کا دماغ پہلے تو اس کا قدم چلے |
سن کر سبھی وہ مشوروں کو ان پہ کم چلے |
اعلان کر دے رات میں کب کیا کسے پتہ |
لمبی زباں پہ ویسے تو لمبی قسم چلے |
رہتے ہیں دور دور ہمیشہ اسی سے لوگ |
تلخی بھری زبان ہمیشہ جو خم چلے |
ناکامیوں کو کیسے مقدر پہ ٹال دے |
تدبیر اور ذکرِ خدا دم بہ دم چلے |
تنہا ملے ہیں موڑ کئی راستے مگر |
امید کے سہارے ابھی تک تو ہم چلے |
ہوتے تھے فیض یاب کبھی در پہ عام بھی |
اب خاص ہی عزیزوں پہ لطف و کرم چلے |
کرتا ہے انتظار کوئی دکھ میں رات دن |
تو آ کہ مجھ کو چھوڑ کے رنج و الم چلے |
انصاف کو ترستے عدالت میں ملزمین |
منصف ادھر جدھر کو وہ اہلِ ستم چلے |
رکھنا مرا بھرم تو یہاں اے مِرے خدا |
ام روز ہر جگہ تو بھرم ہی بھرم چلے |
فرمانِ تغلقی کو سر آنکھوں سے چوم کر |
وہمی بہت سے لوگ بچانے دھرم چلے |
قاتل بنائے خود کو یہ کیسا ہے دیش پریم |
غارت گری کو اب وہ بنانے صنم چلے |
صدق و صفا کہاں ہے فقط نام کے لئے |
محفل سے ہی بنانے فضا محترم چلے |
ہم ساتھ ساتھ آئے تھے اک امتحان میں |
رشوت سے وہ تو سرخ رو ہم چشمِ نم چلے |
امن و اماں کے نام پہ پہرے ہیں ہر پہر |
کیسے یہاں کسی کے زبان و قلم چلے |
کتنی حکومتوں کے نشاں مٹ گئے یہاں |
وہ بھی تو آج ان کے بہ نقشِ قدم چلے |
نا کافیِ معاش کے چلتے یہاں کے لوگ |
محتاج ہو کے سوئے عرب اور عجم چلے |
معلومات