مِرے حال پر کرم ہو شب و روز یا حبیبی
کرو دور میرے آقا غم و خوف و بد نصیبی
سنے کون بن تمہارے جسے حالِ غم سناؤں
نہ کوئی مِرا ہے اپنا نہ کوئی مِرا قریبی
کھِلے کتنوں کے مقدر جو ہوا کرم تمہارا
مگر اک مِرا مقدر لئے زخم ہے صلیبی
چلے ماہِ حج میں حاجی لے کے عزم سوئے کعبہ
جنہیں دیکھ دیکھ ٹوکے مجھے یہ مِری غریبی
حسد و ریا سے پُر ہے دلِ سنگ قوم مسلم
حسن و حسین کی پھر اسے چاہئے طبیبی
مِرا دل تڑپ تڑپ کر کرے ہر گھڑی گزارش
درِ پاک پر بلا کے لے لو حاضری مِری بھی
سرِ بزم کیسے کوئی اے ضیا تجھے سنے گا
نہ سخن میں ہے تاثر نہ صدا ہے عندلیبی

0
42