مری قسمت پہ خوش یہ سنسار پھر ہے
پڑا مجھ پر الم جو اک بار پھر ہے
نبھاؤں کیسے میں بد حالی میں رشتے
تہی دستی سے حالت نا چار پھر ہے
لے سکتی ہے جاں اس کی شیریں زبانی
چلن اس کا وہی اور گفتار پھر ہے
کبھی اک جا ہوئے کیا ظلمت اجالے
انہیں باتوں پہ اس کو اصرار پھر ہے
لہو کا قطرہ قطرہ تھا حق پہ قرباں
کہے جاں اور دوں دل تیار پھر ہے

0
66