| مری قسمت پہ خوش یہ سنسار پھر ہے |
| پڑا مجھ پر الم جو اک بار پھر ہے |
| نبھاؤں کیسے میں بد حالی میں رشتے |
| تہی دستی سے حالت نا چار پھر ہے |
| لے سکتی ہے جاں اس کی شیریں زبانی |
| چلن اس کا وہی اور گفتار پھر ہے |
| کبھی اک جا ہوئے کیا ظلمت اجالے |
| انہیں باتوں پہ اس کو اصرار پھر ہے |
| لہو کا قطرہ قطرہ تھا حق پہ قرباں |
| کہے جاں اور دوں دل تیار پھر ہے |
معلومات