رتبہ بڑھا سماج میں شہرت بھی بڑھ گئی |
لیکن اسی کے ساتھ عداوت بھی بڑھ گئی |
انسان ایک چاہئے انساں کے درمیاں |
کوئی ملا نہ اور مشقت بھی بڑھ گئی |
ان کا رویہ دیکھ کے حیرت زدہ ہیں ہم |
اس دوستی میں شدتِ نفرت بھی بڑھ گئی |
اربابِ اقتدار کے فرمان ہی سے تو |
قلت ہوئی ہے مال کی قیمت بھی بڑھ گئی |
جب تھا کوئی قریب کوئی چاہتا نہ تھا |
دوری بڑھی تو دور سے چاہت بھی بڑھ گئی |
اس کو ملا ہے جب سے شقی رہنما کا ہاتھ |
ہمت جگر میں دل میں شرارت بھی بڑھ گئی |
دیکھی ابھی ابھی قسم ان کی نہ جو رہی |
بد نامیوں کے ساتھ خجالت بھی بڑھ گئی |
مٹتی گئی تمیز حلال و حرام کی |
آگے وہی قدیم روایت بھی بڑھ گئی |
معلومات