کیا یہاں چاہیے کیا وہاں چاہیے
ہاں کہیں بھی مجھے تیری ہاں چاہیے
دل ہے سجدوں سے خالی ریا کار کا
بس زمیں سے جبیں کو نشاں چاہیے
گلستاں کی حفاظت جو دل سے کرے
سب کو ویسا یہاں باغباں چاہیے
جو تعصب گلوں کے دلوں میں بھرے
اب نہ ایسا کوئی حکمراں چاہیے
جن بہاروں میں پھولوں کا حق ہی چھنے
ان بہاروں سے اچھی خزاں چاہیے
جو سنے اور خود بھی کہے حالِ دل
ایک ایسا خفی راز داں چاہیے
میں بھی شامل ہوں شاید انہیں لوگوں میں
رات دن جن کو آرامِ جاں چاہیے
اِن پھلوں میں کھٹاپن جو بڑھنے لگی
دن میں کیا چاند اور کہکشاں چاہیے
ہو رہے سب تو رسوا خودی بیچ کر
نقد ہی کے عوض ہاں میں ہاں چاہیے

138