| دیکھ کیا مجبور ہوں نا چار ہوں |
| ہاں مگر قسمت سے میں نادار ہوں |
| ہر کوئی مصروف ہے اپنے لئے |
| اوروں کی خاطر میں ہی تیار ہوں |
| ڈھونڈھتا ہوں ہر بہانہ رات و دن |
| کہنے کو تو میں بہت خوددار ہوں |
| خاک ہوں جس کی کوئی قیمت نہیں |
| بجھ چکی وہ آگ اب بے کار ہوں |
| لٹ گیا سب درمیاں بازار کے |
| کیا بچا خالی سرِ بازار ہوں |
| ساتھ میرے چل سکے کیسے کوئی |
| مال و دولت سے نادار ہوں |
| کر سکا کب کش مکش میں فیصلہ |
| زندگی پر زندگی کا بار ہوں |
| سن ذرا میرے تڑپتے شعر کو |
| مطمئن کب، مضطرب اشعار ہوں |
| پاس میرے آنے سے کترائے وہ |
| کیا کوئی میں ایک نوکِِ خار ہوں |
| اور مجھ پر کر عنایت اے خدا |
| حالتِ موجودہ سے دو چار ہوں |
| کر نہ پایا خدمتیں ماں باپ کی |
| جن سے میں محروم اور بے زار ہوں |
| اڑ رہے ہیں سب فضا میں خود، ضیا، |
| میں ابھی بھی سایہِ دیوار ہوں |
معلومات