کروں زباں سے بیان کیا کیا تمہیں مِری کیا خبر نہیں ہے
کرے جو حاجت روائی میری یہی ہے در اور در نہیں ہے
سنو گزارش تڑپتے دل کی کلی کھلے کب جھلستے دل کی
کرم کی بارش ذرا ہو دل پر یہ دل تو ہے خشک تر نہیں ہے
بھنور میں کشتی مِری پڑی ہے نکالو مجھ کو کٹھن گھڑی ہے
مِرے اے مرشد تمہارے آگے بھنور یہ کچھ بھی بھنور نہیں ہے
حضور میرے مِری طلب ہو تمہیں وسیلہ تمہیں سبب ہو
ملا دو اپنے خدا سے مجھ کو تمہارے بِن تو گزر نہیں ہے
سیاہ راتیں سیاہ سب کچھ اجالے بِن تو دِکھے نہ اب کچھ
بھٹک گئے کیا اجالے رستے نصیب میں کیا سحر نہیں ہے
سکون مجھ سے جدا جدا ہے یہ زندگی کیوں ہوئی خفا ہے
ہو چاہے صبح و کہ شام اپنی قرار آٹھوں پہر نہیں ہے
زمانہ اس کا برا کرے کیا ہو گر تمہاری نگاہ آقا
رہے اکیلا کہ دشمنوں میں اسے، ضیا، خوف و ڈر نہیں ہے

51