| کروں زباں سے بیان کیا کیا تمہیں مِری کیا خبر نہیں ہے |
| کرے جو حاجت روائی میری یہی ہے در اور در نہیں ہے |
| سنو گزارش تڑپتے دل کی کلی کھلے کب جھلستے دل کی |
| کرم کی بارش ذرا ہو دل پر یہ دل تو ہے خشک تر نہیں ہے |
| بھنور میں کشتی مِری پڑی ہے نکالو مجھ کو کٹھن گھڑی ہے |
| مِرے اے مرشد تمہارے آگے بھنور یہ کچھ بھی بھنور نہیں ہے |
| حضور میرے مِری طلب ہو تمہیں وسیلہ تمہیں سبب ہو |
| ملا دو اپنے خدا سے مجھ کو تمہارے بِن تو گزر نہیں ہے |
| سیاہ راتیں سیاہ سب کچھ اجالے بِن تو دِکھے نہ اب کچھ |
| بھٹک گئے کیا اجالے رستے نصیب میں کیا سحر نہیں ہے |
| سکون مجھ سے جدا جدا ہے یہ زندگی کیوں ہوئی خفا ہے |
| ہو چاہے صبح و کہ شام اپنی قرار آٹھوں پہر نہیں ہے |
| زمانہ اس کا برا کرے کیا ہو گر تمہاری نگاہ آقا |
| رہے اکیلا کہ دشمنوں میں اسے، ضیا، خوف و ڈر نہیں ہے |
معلومات