سوچ سوچ کر دلِ نادان بے قرار ہوا
ایک بار ہی تو نہیں اس طرح سو بار ہوا
رو رہا ہے خانہِ گِل رنگ ابر دیکھتے ہی
محلوں والوں کے لئے موسم یہ خوشگوار ہوا
باغ باغ جھوم اٹھے آمدِ بہار سے کب
آمدِ خزاں کا رخِ گل تو اب شکار ہوا
چھپ گیا ہے کہاں اے وقت ساز گار بتا
تا حیات مجھ سے ترا ہی تو انتظار ہوا
دور ہے کہاں تو مری اس بے بس نظر سے چھپا
سر ذرا تو دیکھ مصیبت سے سنگسار ہوا
ہم تو سمجھے تھے جسے اپنا اسی نے چھوڑدیا
اعتماد کر کے مِرا ہی یقیں شکار ہوا
نفرتوں کے شہر میں سب لوگ ڈر کے رہنے لگے
انتظامِ شہر یہاں بھی بے اختیار ہوا
اس زمانے میں چلے جو تھام کر کے دامنِ حق
چشمِ دنیا میں وہ ضیا اب گناہ گار ہوا

0
51