| سوچ سوچ کر دلِ نادان بے قرار ہوا |
| ایک بار ہی نہیں ایسا تو بار بار ہو |
| سوچتا ہے خانۂ گِل رنگِ ابر دیکھنے پر |
| کب غریبوں کے لئے موسم یہ خوشگوار ہوا |
| باغ باغ جھوم اٹھے آمدِ بہار سے تو |
| دستِ جبر کا رخِ گل پھر یہاں شکار ہوا |
| چھپ گیا ہے کہاں اے وقت ساز گار بتا |
| تا حیات مجھ سے ترا ہی تو انتظار ہوا |
| دور ہے کہاں تو مری اس بے بس نظر سے چھپا |
| سر ذرا تو دیکھ مصیبت سے سنگسار ہوا |
| ہم تو سمجھے تھے جسے اپنا اسی نے چھوڑدیا |
| اعتماد کر کے مِرا ہی یقیں شکار ہوا |
| نفرتوں کے شہر میں سب لوگ ڈر کے رہنے لگے |
| انتظامِ شہر یہاں بھی بے اختیار ہوا |
| اس زمانے میں چلے جو تھام کر کے دامنِ حق |
| چشمِ دنیا میں وہ ضیا اب گناہ گار ہوا |
معلومات