ہر فیصلہ سے مدعی کی اب تو جاں غمگین ہے |
لیکن عدالت فیصلے سے خود کہاں غمگین ہے |
آتی نہیں ہے نیند اب تاریک شب کی گود میں |
دیوار و در فرش و زمیں عرش و مکاں غمگین ہے |
اب دوستی تو رہ گئی اپنی غرض کے واسطے |
دم بھرنے والا دوستی کا ہم زباں غمگین ہے |
گستاخیاں میری کبھی اس کی کبھی وہ بے رخی |
اس میں چھپی ہے کیا وفا یا جانِ جاں غمگین ہے |
سب کی زباں پر ہے جہیز و مال کی کثرت سے مانگ |
جس کے سبب بیٹی بہو بیوی وہ ماں غمگین ہے |
ایسی سیاست زندگی میں آج تک دیکھی نہیں |
جس ملک میں مزدور کیا ہر نو جواں غمگین ہے |
جس فعل سے پلتے رہے ظلم و ستم ماحول میں |
اس فعل سے اس کا پڑوسی ہم رہاں غمگین ہے |
معلومات