مٹھی کھلی وہ بند ہتھیلی نہیں رہی
کھل ہی گئی وہ بات پہیلی نہیں رہی
اٹھتی رہی جہاں سے ہمیشہ صدائے امن
اب شہر میں کہیں وہ حویلی نہیں رہی
ساری فضا میں نفرتوں کا زہر بھر دیا
اس کی زبان اب تو اکیلی نہیں رہی
بڑھتی عمر کے سنگ نئی آس اور امنگ
لیکن یہ عمر اب تو نویلی نہیں رہی
ماتم کرے گلہ کرے انجام ہے پتہ
کس کو کلی کہے کہ سہیلی نہیں رہی

0
64