مٹھی کھلی وہ بند ہتھیلی نہیں رہی |
کھل ہی گئی وہ بات پہیلی نہیں رہی |
اٹھتی رہی جہاں سے ہمیشہ صدائے امن |
اب شہر میں کہیں وہ حویلی نہیں رہی |
ساری فضا میں نفرتوں کا زہر بھر دیا |
اس کی زبان اب تو اکیلی نہیں رہی |
بڑھتی عمر کے سنگ نئی آس اور امنگ |
لیکن یہ عمر اب تو نویلی نہیں رہی |
ماتم کرے گلہ کرے انجام ہے پتہ |
کس کو کلی کہے کہ سہیلی نہیں رہی |
معلومات