رفاقت رفیقوں سے اب بیر سی ہے
خصومت دلوں کو لگے خیر سی ہے
شناسا جو تھی چشم اب غیر سی ہے
نشیڑی کی وہ کھوپڑی دیر سی ہے
فضیحت کی زنجیر ہے اس گلے میں
سراپا دیا جو وطن کے بھلے میں

0
64