نہ ہے اس کے جیسا ہزاروں میں کوئی |
کہاں گل ہے ویسا بہاروں میں کوئی |
بسائے ہوئے ان گنت داغ دل میں |
ہنسے چاند جیسے ستاروں میں کوئی |
یہ فطرت کہ اپنا وہ سمجھے سبھی کو |
نہ سمجھا اسے اتنے یاروں میں کوئی |
کرے اف تلک کب دل و جاں جلاکر |
دکھوں کے سلگتے شراروں میں کوئی |
ہے ایسا سخی غم کے ماروں میں کوئی |
بنے وہ بھی قابل جو قابل نہیں ہے |
بھرے جوش ان بے سہاروں میں کوئی |
بہن ماں پسر سب کے سب ہیں یہاں پر |
اکیلا لگے رشتے داروں میں کوئی |
ہے اتنا بھروسہ مگر یاد رکھ دل |
دغا دے نہ دے جاں نثاروں میں کوئی |
لگائی شریفوں نے خود ہی قظاریں |
دکھے بھی تو انساں قطاروں میں کوئی |
خوشامد نہیں کی تبھی تو ضیا کو |
بالآخر رکھا عیب داروں میں کوئی |
معلومات