| کس کو سنائیں اب حالِ زندگی کو ہم |
| لے کر کہاں یہ جائیں اپنی خودی کو ہم |
| کچھ یاد ہی نہیں کیا اپنے لئے کیا |
| ترجیح دیتے آئے ان کی خوشی کو ہم |
| ایک آن کے لئے آئی تھی جو روشنی |
| برسوں سے ڈھونڈھتے ہیں اس روشنی کو ہم |
| ہم کو بنا کے اپنا مطلب لیا نکال |
| پھر بھی رہے چھپاتے اس کی کمی کو ہم |
| بادل وہ کالے کالے اور ان کے درمیاں |
| بھولے نہیں ابھی اجلی چاندنی کو ہم |
| مت پوچھ دوستوں کی تو بات اور بھی |
| ترسے ہیں دوستوں سے بھی دوستی کو ہم |
| ماحول میں فلاح و بہبود کے لئے |
| اب بھولیں دشمنوں کی بھی دشمنی کو ہم |
| چلمن میں دیکھ اس کو ایسا لگا ،ضیا، |
| کیا دیکھ پائیں گے درِ قیمتی کو ہم |
معلومات