گاؤں کی ہر گلیوں میں مرا چرچہ صبح و شام رہا
مل نہ سکا وہ آج تلک میں جس کے لئے بد نام رہا
کیسے کروں ساقی سے شکایت اس کی نظر تو اٹھی ہی نہیں
پینے کو لب تو ترستے رہے آنکھوں میں اس کی جام رہا
ساون کی بھری ہر یالی میں دھانی چنر کا لہرانا
اس کے اشارے سمجھنے میں پاگل بادل تو ناکام رہا
تو نے اگر کھائی ہے قسم مجھ سے کبھی نہیں ملنے کی
حسن ترا کیوں اترا اترا بت بن کے لبِ بام رہا
اپنوں نے احسان کے ہاتھوں باندھا بال و پر کو مرے
کرتا میں پرواز کدھر کو احسانوں کا دام رہا

0
54