| گاؤں کی ہر گلیوں میں مرا چرچہ صبح و شام رہا |
| مل نہ سکا وہ آج تلک میں جس کے لئے بد نام رہا |
| کیسے کروں ساقی سے شکایت اس کی نظر تو اٹھی ہی نہیں |
| پینے کو لب تو ترستے رہے آنکھوں میں اس کی جام رہا |
| ساون کی بھری ہر یالی میں دھانی چنر کا لہرانا |
| اس کے اشارے سمجھنے میں پاگل بادل تو ناکام رہا |
| تو نے اگر کھائی ہے قسم مجھ سے کبھی نہیں ملنے کی |
| حسن ترا کیوں اترا اترا بت بن کے لبِ بام رہا |
| اپنوں نے احسان کے ہاتھوں باندھا بال و پر کو مرے |
| کرتا میں پرواز کدھر کو احسانوں کا دام رہا |
معلومات