کوئی نہ روزگار کوئی پوچھتا نہیں |
ویسے بہت ہیں یار کوئی پوچھتا نہیں |
ہاں دولت و شعور و ہنر اور زمیں کہاں |
بس خامیاں ہیں چار کوئی پوچھتا نہیں |
آنکھوں میں گرم ذرے بیابانِ ہجر کے |
سوکھے لب و عذار کوئی پوچھتا نہیں |
مشکل نہیں ہے چارہ گری پر زبان سے |
مشکل ہے بار بار کوئی پوچھتا نہیں |
امید و انتظار لگن اور صبر و شوق |
اِن کو ہے انتظار کوئی پوچھتا نہیں |
محتاج و بے گناہ غریب الَوطن یہاں |
ایسے ہیں بے شمار کوئی پوچھتا نہیں |
تنہا تو چل پڑا ہوں کسی سمت کو مگر |
کرنا ہے کیا پکار کوئی پوچھتا نہیں |
تھے ساتھ دوستوں کے جوانی جو تھی رواں |
سنگت نے کیا بے کار کوئی پوچھتا نہیں |
کم زور و خستہ جان و پریشان حال کی |
لمبی لگی قطار کوئی پوچھتا نہیں |
مغرور حکمران کو ہے خوف اب کہ وہ |
چن چن کرے شکار کوئی پوچھتا نہیں |
انصاف کا ہو قتل جہاں آس کیا وہاں |
منصف ہے طرف دار کوئی پوچھتا نہیں |
حق دوستی کا خوب نبھایا ہے دوست نے |
اربوں گیا ڈکار کوئی پوچھتا نہیں |
معلومات