نہ طاقت نہ دولت بھناؤں میں کیا |
نہیں کچھ مِرے پاس لاؤں میں کیا |
امید و توکل وہ صبرِ حسین |
یہ اپنے خزانے لٹاؤں میں کیا |
یہ نیندیں وہ آنکھیں خفا ہیں مگر |
کوئی ذہن میں ہے سلاؤں میں کیا |
اکیلا ہی چلتا رہا عمر بھر |
کوئی اور ساتھی بناؤں میں کیا |
ترے ساتھ روٹھی یہ تقدیر بھی |
تجھے چھوڑ اِس کو مناؤں میں کیا |
تری دوستی دوستی کب رہی |
غرض تیری سب کو بتاؤں میں کیا |
چھپے اجلے کپڑوں میں داغی بدن |
تو اجلے وہ کپڑے ہٹاؤں میں کیا |
لٹی زندگی اور لٹتی گئی |
ضیا اب گلے سے لگاؤں میں کیا |
معلومات