غم سے لڑے ہر بشر، اس نئے ماحول میں
کیسے ہو سب کا گزر اس نئے ماحول میں
نفرتوں کے بیخ جو بوئے گئے ہر جگہ
بن گئے ہیں اب شجر، اس نئے ماحول میں
کیسے کوئی چل سکے سر پھروں کی بھیڑ میں
چاروں طرف شر کے سر، اس نئے ماحول میں
دیکھتے ہی دیکھتے زہر اگلنے لگا
مجمعِ شخص و بشر، اس نئے ماحول میں
کچے دماغوں میں جو سوچ نفی کی بھری
دکھ رہا اس کا اثر، اس نئے ماحول میں
خار بچھانے لگے غنچے جواں ہوتے ہی
کو بہ کو و در بہ در اس نئے ماحول میں
پہلے کوئی بات لگتی نہیں تھی جان کو
اب فسوں جادو سحر، اس نئے ماحول میں
پیار و محبت کو ہی ختم کرے ظلم سے
بن کے شقی راہبر، اس نئے ماحول میں
زخم سہے آج تک دل نے شکایت نہ کی
خوف سے کانپے جگر، اس نئے ماحول میں

0
62