ہنسنے لگی ہے دنیا اپنی جو داستاں پر |
لانا کبھی نہ لفظِ شکوہ کوئی زباں پر |
ہو گر زبان پیاسی تو اشکِ گرم پی لے |
بھاتا نہ اب کسی کو آنا ترا کنواں پر |
رستے میں میرے کانٹے ڈالیں نہ لوگ تیرے |
ان کی چبھن سے کیا ہو موجود تو جہاں پر |
جاگی ہیں آنکھیں میری اس رات بھی نہ آئے |
تارے لگے ہیں سونے اب تھک کے آسماں پر |
اٹھتا ہے اس گھڑی اک طوفان سوزِ دل میں |
پڑتی ہے جب نظر اس دروازہِ مکاں پر |
نظریں بچا کے جاتے ہیں لوگ سامنے سے |
مشکل ہوا ہے اب تو جینا مِرا یہاں پر |
کب خاک میں ملایا گل آرزوئے دل کا |
نازاں بہت ضیا تھا، تھا ناز باغباں پر |
معلومات