مجرم ہے گناہ گار بھی ہے
بے شرم ہے بے وقار بھی ہے
فرعون سے لے کے کبر کوئی
دنیا میں ذلیل و خوار بھی ہے
ظالم کو سزا پھر اور، اسی کا
چوری چھپے انتظار بھی ہے
ہم دِکھتے تو متحد ہیں سارے
دل میں مگر انتشار بھی ہے
حیرت سے نہ دیکھ دستِ مرشد
پیروں تلے اقتدار بھی ہے
دکھ درد و الم کے ساتھ ہرپل
اس دل میں خیالِ یار بھی ہے
احسان و مدد کے قرض کا بوجھ
سر پر مِرے مستعار بھی ہے
کچھ آج پلا دے مجھ کو ساقی
تو بھی تو یہیں مے خوار بھی ہے
چلمن نے کہا رخ و جبیں سے
پردے سے بے پردہ عار بھی ہے
ہر رات لگے یوں چپکے چپکے
پلکوں پہ کوئی سوار بھی ہے
کچھ موج کرے وطن کے دھن پر
دھن لوٹ کے کچھ فرار بھی ہے
آزاد ہوئے زمانہ گزرا
پر قید وہی حصار بھی ہے
کردار و عمل سے بھاگے بھاگے
لیکن زباں سے نثار بھی ہے
ہر پھول سے چہرے پر نہ جانا
ہر پھول کے نیچے خار بھی ہے
یہ جیت ہمیشہ یاد رکھنا
اس جیت میں ایک ہار بھی ہے
ہنسنا ہے ابھی تو ہنس لے جی بھر
رونا یہیں زار زار بھی ہے

0
2
31

مجرم ہیں گناہ گار بھی ہیں
بے شرم ہیں، بے وقار بھی ہیں
فرعون سے آگے کِبر میں ہم
اپنوں کے ہی خوں خوار بھی ہیں

بہت بہت شکریہ جناب
اصلاح کے لئے

0