| ٹھنڈی ٹھنڈی بادِ صبا جو صبح جگانے آتی ہے |
| لیکن میٹھی نیند میں ڈوبے کچھ کو سلانے آتی ہے |
| بیٹھی بلبل تھک جائے جب ان پیڑوں کی چھاؤں میں |
| تب دل بہلانے کنواں پر پانی کے بہانے آتی ہے |
| جسم و تن تو جل ہی گئے گرم ہوا کے جھونکوں سے |
| پھر بھی چڑھتی دھوپ دو پہری دل کو جلانے آتی ہے |
| لمبی کالی زلف گھنیری دوشِ ہوا پر اڑ اڑ کے |
| گاؤں کے ہر چھپر سے کیا گرمی کو اڑانے آتی ہے |
| سرخ کنارے پورب کے اور رنگِ سرخ چرا کے وہ |
| صبح سویرے اسی کو لے کر مغرب کو رجھانے آتی ہے |
| دیکھ سمندر کی لہروں پر سر دھنتی بے چین کرن |
| لہروں پر چڑھ کر کس کو ساحل پہ بلانے آتی ہے |
معلومات