ٹھنڈی ٹھنڈی بادِ صبا جو صبح جگانے آتی ہے
لیکن میٹھی نیند میں ڈوبے کچھ کو سلانے آتی ہے
بیٹھی بلبل تھک جائے جب ان پیڑوں کی چھاؤں میں
تب دل بہلانے کنواں پر پانی کے بہانے آتی ہے
جسم و تن تو جل ہی گئے گرم ہوا کے جھونکوں سے
پھر بھی چڑھتی دھوپ دو پہری دل کو جلانے آتی ہے
لمبی کالی زلف گھنیری دوشِ ہوا پر اڑ اڑ کے
گاؤں کے ہر چھپر سے کیا گرمی کو اڑانے آتی ہے
سرخ کنارے پورب کے اور رنگِ سرخ چرا کے وہ
صبح سویرے اسی کو لے کر مغرب کو رجھانے آتی ہے
دیکھ سمندر کی لہروں پر سر دھنتی بے چین کرن
لہروں پر چڑھ کر کس کو ساحل پہ بلانے آتی ہے

0
54