مجرم ہے، مگر اس کے سزاوار تمہیں ہو
ہر جرم کے بس مرکزِ کردار تمہیں ہو
ہر شام نئی اک حسیں چوپال سجا کر
معذور دماغوں کے خریدار تمہیں ہو
کب کیسے کہاں نفرتوں کی اینٹ لگے گی
اس کام کے تو ماہرِ معمار تمہیں ہو
نو عمر جواں جسم، دل و جاں ہوئے داغی
بے داغ لڑکپن کے خطاوار تمہیں ہو
کھائی تھی قسم جس نے کبھی راج محل میں
دستور اٹھائے وہ قسم خوار تمہیں ہو
اک چیز ہے امن و اماں گلشن میں ہمارے
ہر شاخ پہ پھولوں کی جگہ خار تمہیں ہو

1
41
کیا کہنا

0