| مجرم ہے، مگر اس کے سزاوار تمہیں ہو |
| ہر جرم کے بس مرکزِ کردار تمہیں ہو |
| ہر شام نئی اک حسیں چوپال سجا کر |
| معذور دماغوں کے خریدار تمہیں ہو |
| کب کیسے کہاں نفرتوں کی اینٹ لگے گی |
| اس کام کے تو ماہرِ معمار تمہیں ہو |
| نو عمر جواں جسم، دل و جاں ہوئے داغی |
| بے داغ لڑکپن کے خطاوار تمہیں ہو |
| کھائی تھی قسم جس نے کبھی راج محل میں |
| دستور اٹھائے وہ قسم خوار تمہیں ہو |
| اک چیز ہے امن و اماں گلشن میں ہمارے |
| ہر شاخ پہ پھولوں کی جگہ خار تمہیں ہو |
معلومات