دشمن بہت ہے خوش کہ مرے سر پہ چھت نہیں |
پھر بھی خوشی سے ان کو ملے عافیت نہیں |
بھاتے نہ خاندان کے اپنے اسے یہاں |
تعلیم بہترین ملی تربیت نہیں |
جرات کہاں کہ پوچھ سکوں خیریت تری |
تو ہے جہاں تو کیسے وہاں خیریت نہیں |
ملتے نہیں ہیں لوگ اسے جس کے پاس آج |
شہرت کوئی نہ جب حشم و حیثیت نہیں |
کہنے کو تو بہت ہیں یہاں اونچے اونچے سر |
ان ہی سروں میں شر بسے انسانیت نہیں |
تقوٰی و زہد و صبر یہ ایمان کے ہیں جزو |
کمزور سب کرے انہیں دے تقویت نہیں |
سنتے ہم آئے تھے مگر اب دیکھ بھی لیا |
دولت اگر نہیں، قدر و منزلت نہیں |
تیری نظر کو اب تو دکھے سارے بے وقوف |
پہلے ترے گمان کو ایسی تو لت نہیں |
عالم بڑا تو بن کے وہ عامل بنا پھرے |
نقدی بھلی جناب کو اب علمیت نہیں |
معیار تقوٰی کا ہے بزرگی کے واسطے |
ورنہ ضیا کسی پہ کوئی فوقیت نہیں |
معلومات