| ہم اہلِ خانہ سے اپنی لگی چھپاتے رہے |
| کسی طرح سے لبوں پر ہنسی سجاتے رہے |
| گنے تو کیسے گنے زخم اَن گنت کوئی |
| یہ روح و جسم نئے زخم روز کھاتے رہے |
| سبھی خوشی میں ملے پر الگ دکھوں میں دِکھے |
| یہی چلن ہے جہاں کا سبھی نبھاتے رہے |
| مِرے سوال میں چبھتے سوال اور بھی ہیں |
| ترے جواب کئی اور سوال اٹھاتے رہے |
| بہت دنوں پہ وہی آج کشمکش دیکھی |
| نظر بچا کے اُدھر سے اِدھر گھماتے رہے |
| کہیں چبھے نہ کوئی خار نرم قدموں میں |
| اسی کے چلتے سرِ راہ گل بچھاتے رہے |
| انہیں شریفوں نے توڑا ہے دوستی کا بھرم |
| جنہیں شریکِ غمِ دل یہاں بناتے رہے |
| ہماری جان کے پیچھے پڑے ہیں صدیوں سے |
| یہ جانتے ہوئے ان کو گلے لگاتے رہے |
معلومات