نفرت بھری فضا میں محبت سے کام لے
بھٹکے ہوئے جوان ہیں ہمت سے کام لے
یہ وقت مشکلوں کے گزر جائیں گے یوں ہی
صبر و سکوں پھر اور شجاعت سے کام لے
حاکم پہ اعتماد کرے کون اعتبار
جب اپنے فیصلے میں سیاست سے کام لے
آئین بِک رہا ہے سرِ عام نقد میں
کیسے کوئی غریب عدالت سے کام لے
اپنے مفاد کے لئے گھر کو نہ کر تباہ
اے نو جوانِ ہند نہ شدت سے کام لے
وارث تو ہی تو ہے یہاں کے جان و مال کا
اسلاف کے بٹورے وراثت سے کام لے
آزاد ہم ہوئے تھے ذرا دن وہ یاد کر
ان کی بنائی راہِ حمایت سے کام لے
اب رائگاں نہ ہونے دے ان کی شہادتیں
ان کے وہی وہ خونِ شہادت سے کام لے
ٹکڑوں میں یوں نہ بانٹ ہمیں ذات پات میں
باہم رہے توُ جذبۂ خدمت سے کام لے

9