| نفرت بھری فضا میں محبت سے کام لے |
| بھٹکے ہوئے جوان ہیں شفقت سے کام لے |
| یہ وقت مشکلوں کے گزر جائیں گے یوں ہی |
| صبر و سکو ن اور تو ہمت سے کام لے |
| حاکم پہ اعتماد کرے کون اعتبار |
| جب اپنے فیصلے میں سیاست سے کام لے |
| آئین بِک رہا ہے سرِ عام نقد میں |
| کیسے کوئی غریب عدالت سے کام لے |
| اپنے مفاد کے لئے گھر کو نہ کر تباہ |
| اے نو جوانِ ملک نہ شدت سے کام لے |
| وارث تو ہی تو ہے یہاں کے جان و مال کا |
| اسلاف کے بٹورے وراثت سے کام لے |
| آزاد ہم ہوئے تھے ذرا دن وہ یاد کر |
| ان کی بنائی راہِ حمایت سے کام لے |
| اب رائگاں نہ ہونے دے ان کی شہادتیں |
| ان کے وہی وہ خونِ شہادت سے کام لے |
| ٹکڑوں میں یوں نہ بانٹ ہمیں ذات پات میں |
| باہم رہے توُ جذبۂ خدمت سے کام لے |
معلومات