میرا ہی انتظار تری بے رخی کو ہے
پھر کیوں مجھی سے عار تری بے رخی کو ہے
چاہے سنوار دے کہ مٹا دے تو زندگی
یہ سب تو اختیار تری بے رخی کو ہے
جب تک ستا نہ لے وہ مجھے دن میں ایک بار
تب تک کہاں قرار تری بے رخی کو ہے
جان و جگر یہ فکر و نظر سب تو ہیں ترے
سوغات بے شمار تری بے رخی کو ہے
تیری کشش تو تڑپے ترے ہی غرور سے
مجھ سے گلے ہزار تری بے رخی کو ہے
جلتا ہوا وہ روپ سلگتی ہوئی وہ آنکھ
دکھتی کہاں شرار تری بے رخی کو ہے
خاموش چپ کے جاتے، نظر سامنے نہیں
کتنا یہ مجھ سے پیار تری بے رخی کو ہے
لے کر چلا میں آہ تری محفلوں سے اب
پھر بھی، ضیا، پکار تری بے رخی کو ہے

0
82