دلگیر خامشی لئے ہے رات کس طرح
بھیجے اگر کوئی تو پیامات کس طرح
معلوم ہے مجھے وہ تکبر میں علم کے
بھرتے ہیں جاہلوں میں خرافات کس طرح
اسلام کے وقار سے کب ان کو پیار ہے
نیلام خود کو کرتے ہیں دن رات کس طرح
میرا وہ جاگنا وہ تری نیند رات بھر
مت پوچھ دن کٹے ہیں ترے ساتھ کس طرح
آنکھوں میں تشنگی تو حیا پلکوں میں کبھی
کٹتے گئے وہ زیست کے لمحات کس طرح
قسمیں تری فضول، اشارے رقیب کے
لیتا رہا ہمیشہ تو سوغات کس طرح
ہے آرزو کہ کام کسی کے تو آ سکوں
ظاہر کروں کسے یہ خیالات کس طرح
پابندیاں زباں پہ تو قدموں پہ بھی نظر
کوئی سنائے جا کے یہ حالات کس طرح
دل چاہتا ہے ہاتھ بڑھاؤں کہیں تو میں
لیکن بڑھاؤں کس کی طرف ہاتھ کس طرح
اب پوچھتا ہے کون ،ضیا، اشک بار سے
آنکھوں سے ہو رہی ہے یہ برسات کس طرح

0
54