جینا تو ہے مر کے یہاں یہ راز سبھی کو کیا معلوم
اپنے پرائے ہونے لگے سب خاص کسی کو کیا معلوم
نکلے ہم جنت سے تیری یہ تو تری ہی مرضی تھی
ترسیں گے ہم آ کے یہاں ہر ایک خوشی کو کیا معلوم
حسنِ عمل کو دیکھ ترے کرتے ہیں رشک فرشتے بھی
مٹی کے پتلے کی قیمت حور و پری کو کیا معلوم
خشک پڑے ہیں پیاسے لب آنکھیں بھی ہیں پتھرائی سی
ساغرِ مے کب آئے اِدھر اِس تشنہ لبی کو کیا معلوم
آج اڑا لے خوب ہنسی تو ترا ہی وقت و زمانہ ہے
کل رونا نہ پڑے تجھ کو کہیں آج ہنسی کو کیا معلوم
حال شگفتہ پھولوں جیسا ہوگا چل کے تیرا بھی
ہار خوشی یا غم کا بنے معصوم کلی کو کیا معلوم
تخت نشینی پر تجھ کو اتنا تو تکبر ٹھیک نہیں
تخت تو اک دن چھن جائے گا سوچ بری کو کیا معلوم
بھوک لگے تب دانہ تو کیا آنسو نہ میسر ہونٹوں کو
آتشِ بطن جلے کب تک اس بطن تہی کو کیا معلوم
دور تو رہ خود آئینے سے مشکل ہے ان سے یارانہ
عیب کو سامنے سب لادے مغرور خودی کو کیا معلوم
اب نہ غلط کو غلط کہو چاہے ہو جگری دوست کوئی
جان یہ لے لے کب یاری اس جان کنی کو کیا معلوم

0
67