کیا پرکھوں سے محبت ہے کہ بغاوت ہے یا کچھ اور ہے
ان سے ملی جو امانت ہے کہ ذلالت ہے یا کچھ اور ہے
اپنے نہ بھائے ان کو کبھی کیوں خون بہائے اپنوں کا
کیا یہ زمانہِ دشرتھ ہے مہابھارت ہے یا کچھ اور ہے
ملک ہے سارا دھوکے میں کاغذ پر جو دکھے دھرتی پہ نہیں
اب کیا صرف سیاست ہے کہ جہالت ہے یا کچھ اور ہے
بیچ سڑک اک لاش پڑی رکتے پھر دیکھتے جاتے لوگ
انسانی یہ مروت ہے کہ یہ فطرت ہے یا کچھ اور ہے
جو قانون ہے مجرم کے لئے نافذ کیوں بے گناہوں پر
عہدے کی خاص یہ طاقت ہے کہ شقاوت ہے یا کچھ اور ہے
لاکھوں میں تو میں نہیں ہوں بس لاکھوں میں ہے وہی تو ایک
کیا یہ ہماری حقیقت ہے کہ کہاوت ہے یا کچھ اور ہے
ہاتھ بڑھائے کبھی تو وہ اپنا پھر کھینچے پیچھے وہ قدم
اس کی مجھ پہ یہ شفقت ہے کہ حقارت ہے یا کچھ اور ہے
لگنے لگے دولت کے ذخٰیرے بنتے ملازم سرکاری
اس کی خاص یہ اجرت ہے کہ یہ رشوت ہے یا کچھ اور ہے
ملک سے اس کو محبت اتنی نفرت کیوں باشندوں سے
کیا یہ ان کی فطرت ہے کہ عداوت ہے یا کچھ اور ہے
تنہا ہم ہیں رات ہے تنہا ذہن میں شور ہے یادوں کا
کیا یہ ، ضیا، اپنی خلوت ہے کہ جلوت ہے یا کچھ اور ہے

0
56