| غیروں سے خوب میل ترا مجھ سے عار ہے |
| خیر اب مرا نہ تجھ پہ کوئی اختیار ہے |
| غنچے کھلا کے دل کے انہیں پھر مسل گئے |
| ہر غنچہ ایک بار پھر اب اشک بار ہے |
| اقرار تھا کبھی لبوں پر ساتھ دینے کا |
| آج ان لبوں پہ لفظِ نہیں بار بار ہے |
| سہرہ بندھا ہے سر مرے تہمت کے پھولوں کا |
| لیکن ترے گلے میں شرافت کا ہار ہے |
| ہو گا نہ اعتبار کبھی اب تو باتوں پر |
| تھا اعتبار پہلے نہ اب اعتبار ہے |
معلومات