| اے دلِ نا کام تو ہل، اب یہاں سے |
| دور کیا تیری ہے منزل، اب یہاں سے |
| پاس تیرے صرف عزمِ پختہ ہی ہے |
| راہ چل، جتنی ہو مشکل، اب یہاں سے |
| اب مقدر سے کریں کیا ہم شکایت |
| لے چلیں جو کچھ ہے حاصل، اب یہاں سے |
| تیرگی سے گھر گئیں چاروں طرف کیا |
| بجھ گئی کیا شمعِ محفل، اب یہاں سے |
| حال موجودہ اسے بھی کر دیا سخت |
| توڑ دے تلوارِ قاتل، اب یہاں سے |
| ناک میں دم کر دیا ماحول کی وہ |
| کب مٹے گی فکرِ جاہل، اب یہاں سے |
| دیکھ کر سب نفرتی کردار ان کا |
| تھک چکے ہیں لوگ عادل، اب یہاں سے |
| ان دماغوں میں بھرے جو بھی تعصب |
| بن نہ پائے گا وہ قابل، اب یہاں سے |
| کشتیاں حق اور باطل کی بھنور میں |
| کھینچ لے گا سچ کو ساحل، اب یہاں سے |
| میں گناہوں سے بہت پرُ ہوں خدایا |
| نیکیوں کا کر دے حامل، اب یہاں سے |
| کھیل کھیلا ہندو مسلم کا بہت دن |
| بن تو ایک انسان کامل، اب یہاں سے |
| بول بالا جھوٹ کا دیکھا ،ضیا، نے |
| برہنہ ہوگا یہ باطل، اب یہاں سے |
معلومات