اے دلِ نا کام تو ہل، اب یہاں سے
دور کیا تیری ہے منزل، اب یہاں سے
پاس تیرے صرف عزمِ پختہ ہی ہے
راہ چل، جتنی ہو مشکل، اب یہاں سے
اب مقدر سے کریں کیا ہم شکایت
لے چلیں جو کچھ ہے حاصل، اب یہاں سے
تیرگی سے گھر گئیں چاروں طرف کیا
بجھ گئی کیا شمعِ محفل، اب یہاں سے
حال موجودہ اسے بھی کر دیا سخت
توڑ دے تلوارِ قاتل، اب یہاں سے
ناک میں دم کر دیا ماحول کی وہ
کب مٹے گی فکرِ جاہل، اب یہاں سے
دیکھ کر سب نفرتی کردار ان کا
تھک چکے ہیں لوگ عادل، اب یہاں سے
ان دماغوں میں بھرے جو بھی تعصب
بن نہ پائے گا وہ قابل، اب یہاں سے
کشتیاں حق اور باطل کی بھنور میں
کھینچ لے گا سچ کو ساحل، اب یہاں سے
میں گناہوں سے بہت پرُ ہوں خدایا
نیکیوں کا کر دے حامل، اب یہاں سے
کھیل کھیلا ہندو مسلم کا بہت دن
بن تو ایک انسان کامل، اب یہاں سے
بول بالا جھوٹ کا دیکھا ،ضیا، نے
برہنہ ہوگا یہ باطل، اب یہاں سے

0
62