چھوٹے میٹھے دانے ہیں
جال وہیں پر تانے ہیں
پھر بھی ان کو خوف نہیں
یہ پنچھی انجانے ہیں
ان کی پیاس نہیں بجھتی
لب سے لگے پیمانے ہیں
ان کی نظر میں جنتا کیا
صرف نظر میں خزانے ہیں
کیسے بھروسا ان پہ کریں
اپنے ہی بیگانے ہیں
ان کی میٹھی باتوں کے
کچھ ہی تو دیوانے ہیں
چند رئیسوں ہی نے رکھے
کالے دھن سرہانے ہیں
جلنا قسمت ہے اپنی
یہ تو اشک بہانے ہیں

0
28