| آباد ہیں کچھ لوگ تو برباد بہت ہیں |
| کچھ شاد ہیں اس دور میں ناشاد بہت ہیں |
| ہر بھیس میں ہیں عاشقِ دیں تو مگر ان میں |
| موجود بھی سودائیِ الحاد بہت ہیں |
| تعلیم و عمل میں ہمیں سب سے رہے پیچھے |
| تعلیم و عمل میں کہاں استاد بہت ہیں |
| اسلام رہے گا یہیں تم سے نہ مٹے گا |
| مانا کہ تمہاری یہاں تعداد بہت ہیں |
| جنگِ حق و باطل میں خدا ساتھ ہے میرے |
| کیوں خوف ہو گر لشکرِ شداد بہت ہیں |
| محروم ہے خدمت سے بڑھاپا اسے دیکھو |
| اولاد کے بِن، صاحبِ اولاد بہت ہیں |
| کتنوں کو نکالیں بھلا ہمسایوں کے گھر سے |
| ہر گھر میں تو شیطان کے ہمزاد بہت ہیں |
| مظلوم ہے کوشاں، ہو کوئی فیصلہ لیکن |
| قاضی نہ سنے نالش و فریاد بہت ہیں |
| غیبت کہیں چغلی کہیں، معمول ہے ویسے |
| بے باک زباں پر تو یوں اوراد بہت ہیں |
| پہچان کوئی پائے نہ انسان کو یارو |
| انسان کے رو میں چھپے جلاد بہت ہیں |
| تقریر سنانا ہے فقط فرضِ مقرر |
| اس فرض میں کیوں بدعت و ایجاد بہت ہیں |
| کردار ہے خالی عمل و فعل سے لیکن |
| ہر بات میں ان کے یہاں ارشاد بہت ہیں |
| سب دن تو اکیلا کٹے سب رات اکیلی |
| کہنے کو ،ضیا، ساتھ میں افراد بہت ہیں |
معلومات