نام ازہر ہے نام کیا ہوگا |
اس کہانی میں کام کیا ہوگا |
مٹی مٹی ہے اور مٹی کا |
ہم سے اعلیٰ مقام کیا ہوگا |
جس کو خطرہ ہو جان جانے کا |
کچھ بھی کھا لے حرام کیا ہوگا |
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے |
بھائی صاحب کی کہانی بھی سند ہوتی ہے |
عقل اور عشق میں اک معرکہ آرائی ہے |
دل سے الجھی ہوئی ہر لمحہ خرد ہوتی ہے |
ہے یہ فطرت کا تقاضا یہی قانون قدیم |
بات جب دل سے نکلتی ہے اثر ہوتی ہے |
الجھا ہوں کچھ ایسا کہ رہا ہو نہیں سکتا |
میں اب تری یادوں سے جدا ہو نہیں سکتا |
ہے پھول اسے بھیجا پسند اسکی ہے یارو |
ورنہ یہ گلاب اور بھی کیا ہو نہیں سکتا |
دنیا کی ہر اک لا کے خوشی قدموں میں رکھ دو |
ما ں باپ کا حق پھربھی ادا ہو نہیں سکتا |