راہ گیروں کو یہ امکان کہاں ہوتا ہے
راستہ کوئی بھی آسان کہاں ہوتا ہے
ابن آدم تو نظر آتا ہے بستی بستی
کچھ پتہ کیجیے کہ انسان کہاں ہوتا ہے
آندھیاں دیکھی ہیں سیلاب و تلاطم دیکھے
دل کے اندر ہے جو طوفان کہاں ہوتا ہے
دیش پر جان لٹا دینگے فقط کہتا ہے
رہنما کوئی بھی قربان کہاں ہوتا ہے
نام مسلم ہے سو اسلام میں داخل کہۓ
ہر بشرصاحب ایمان کہاں ہوتا ہے
وقت کی قید جدا ہونا پڑے گا ورنہ
میری خواہش مرا ارمان کہاں ہوتا ہے
کس کا گھر ٹوٹے گا کل دیکھۓ ازہر صاحب
اب تو نوٹس کوئی اعلان کہاں ہوتا ہے

48