غم ہی غم ہیں فقط خوشی نہ رہی
اب وہ پہلے سی زندگی نہ رہی
جہل ہی جہل ہے یہاں ہر سو
ہاں وہی خوۓ آگہی نہ رہی
اس نے پیکر عجیب بخشا ہے
روح نکلی تو لاش بھی نہ رہی
صبح ہوتے ہی ہو گۓ غائب
کیا ستاروں میں روشنی نہ رہی
اب بھی دشمن نہیں سمجھتے ہیں
ہاں مگر اس سے دوستی نہ رہی
میرا معیار کچھ نہیں پھر تو
میرے اندر اگر خودی نہ رہی
میر و غالب کے بعد بھی ازہر
شاعری میں کوئی کمی نہ رہی

0
42