غم ہی غم ہیں فقط خوشی نہ رہی |
اب وہ پہلے سی زندگی نہ رہی |
جہل ہی جہل ہے یہاں ہر سو |
ہاں وہی خوۓ آگہی نہ رہی |
اس نے پیکر عجیب بخشا ہے |
روح نکلی تو لاش بھی نہ رہی |
صبح ہوتے ہی ہو گۓ غائب |
کیا ستاروں میں روشنی نہ رہی |
اب بھی دشمن نہیں سمجھتے ہیں |
ہاں مگر اس سے دوستی نہ رہی |
میرا معیار کچھ نہیں پھر تو |
میرے اندر اگر خودی نہ رہی |
میر و غالب کے بعد بھی ازہر |
شاعری میں کوئی کمی نہ رہی |
معلومات