اک ذرا آئنہ دکھانے سے
دشمنی ہو گئی زمانے سے
ہم تھے شاہین ہو گئے کرگس
فرق آیا حرام کھانے سے
ساری دنیا میں وہ نہیں پایا
جو ملا تیرے پاس آنے سے
زندگی وہ ہی چھین سکتا ہے
لوگ ڈرتے ہیں کیوں زمانے سے
اپنے فن میں وہ اتنا ماہر ہے
کوئی بچتا نہیں نشانے سے
خوشبوۓ یار اب نہیں آتی
کیا وہ اٹھ کر گیا سر ہانے سے
تیرے ہنسنے سے روشنی پھیلے
پھول کھلتے ہیں مسکرانے سے
زندگی میں عمل ضروری ہے
کچھ نہ ہوگا فقط ترانے سے
یہ محبت کی جنگ ہے اس میں
جیت ہوتی ہے ہار جانے سے
وہ بھی تبدیلی چاہتے ہیں یہاں
جن کو فرصت نہیں کمانے سے
سو میں لڑتا رہوں گا آخر تک
موت اچھی ہے قید خانے سے
بعض آؤ گے تم نہیں ازہر
زخم کو شاعری بنانے سے

104