یہ بھی ممکن ہے وہ انکار بھی کر سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہر بار بھی کر سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہو ترک تعلق اس سے
یار تو یار ہے تکرار بھی کر سکتا ہے
آج میٹھی ہے زباں اس کی مگر کل شاید
اپنے لہجے کو وہ تلوار بھی کر سکتا ہے
جان لے لے گا منافق تری دھوکے سے مگر
تیرا‌ دشمن تجھے ہوشیار بھی کر سکتا ہے
نہیں افواہ کو پھیلانا بھی آسان مگر
کام یہ چھوٹا سا اخبار بھی کر سکتا ہے
روزہ رکھا تھا مگربھول کے کھایا اس نے
ہاں اجازت ہے وہ افطار بھی کر سکتا ہے
بات جب ہے کہ ہوں اعمال بھی اچھے ازہر
اچھی باتیں تو گنہگار بھی کر سکتا ہے

59