کچھ تو ہے ان دنوں ہر شام نکل آتے ہیں
موسمِ گل میں تو گلفام نکل آتے ہیں
وہ بھی اب ملنے ملانے کو کہاں آتے ہیں
یوں کہو ہم سے انھیں کام نکل آتے ہیں
قتل ہوتا ہے ہمارا ہی ہمیں ہیں مجرم
سر ہمارے سبھی الزام نکل آتے ہیں
آپ کا حکم ہے پھر جان کی بازی کیا ہے
جو بھی ہو جائے اب انجام نکل آتے ہیں
مسکرانے کی ضرورت ہے سبھی لوگوں کو
ہم تو بس دے کے یہ پیغام نکل آتے ہیں
سوچنے بیٹھیں جو ازہر وہ پرانی باتیں
پھر وہی دکھ وہی آلام نکل آتے ہیں

0
95