یوں اپنی بات کی طرز ادا بدلتے رہے |
کہیں ردیف کہیں قافیہ بدلتے رہے |
بدل نہ پائے وہی ہم جسے بدلنا تھا |
تمام عمر مگر کیا سے کیا بدلتے رہے |
اگا سکے نہ اندھیروں کو چیرتا سورج |
یہ لوگ صرف دیے پر دیا بدلتے رہے |
ہمیں بتایا گیا تھا دعا ضروری ہے |
دعا ہی چھوڑ دی ہم نے دوا بدلتے رہے |
کوئی بھی اپنی کمی کو نہیں بدل پایا |
سبھی یہاں پہ فقط آئینہ بدلتے رہے |
ہمیں ہنر نہیں آیا کبھی بدلنے کا |
وہ اور ہوں گے جو اپنی وفا بدلتے رہے |
یہ پورا گاؤں اداسی کی ضد میں آۓ گا |
پرندے یوں ہی اگر گھونسلا بدلتے رہے |
بھٹک رہے ہیں زمانے میں آج بھی اظہر |
جو لوگ خود نہیں بدلے خدا بدلتے رہے |
معلومات