کیوں چھوڑ گیا ہے وہ وجہ کچھ بھی نہیں ہے
کیا تم کو بتائیں کی ہوا کچھ بھی نہیں ہے
کیوں روک رہے ہو یوں محبت سے بزرگوں
کیا درد ہی اس میں ہیں مزہ کچھ بھی نہیں ہے
تنظیم سے باہر کا فقط رستہ دکھانا
توہین پیمبر کی سزا کچھ بھی نہیں ہے
لیکیج ہو اگر حوض مکمل نہیں بھرتا
باقی ہو اگر مرض غذا کچھ بھی نہیں ہے
ناشکرا ہے انسان جو کہتا ہے خدا سے
کیا تونے دیا ہم کو دیا کچھ بھی نہیں ہے
طائف کی حقیقت انھیں معلوم نہیں ہے
جو لوگ سمجھتے ہیں دعا کچھ بھی نہیں ہے
مجھ کوبھی یقیں وہ مرے اسلاف سا دے دے
دنیا میں خدا تیرے سوا کچھ بھی نہیں ہے

61