اشکوں کا کاروبار بھلایا نہیں گیا
آنسو مگر نگاہ میں لایا نہیں گیا
آ تو گیا تھا بام پے وہ خوش نگاہ بھی
لیکن نقاب رخ سے ہٹایا نہیں گیا
تم نے بھی انقلاب کی حامی نہیں بھری
ہم سے بھی زور تنہا لگایا نہیں گیا
آقا نے خود بتایا ہے اپنی زبان سے
اتنا کسی نبی کو ستایا نہیں گیا
ہے کون جس کو موت نے گھیرا نہیں میاں
مٹی میں کس کو یار ملایا نہیں گیا
ہمکو کلام پاک کی تعلیم دی گئی
مفہوم تو ذرا بھی بتایا نہیں گیا

97