پہلے لفظوں کو تولتا ہوں میں
پھر کوئی بات بولتا ہوں میں
نام اردو ہے اس زمانے میں
پہلے کہتے تھے ریختہ ہوں میں
مجھ کو رزق حلال دے یا رب
یہ دعا روز مانگتا ہوں میں
تم تو مٹی میں بیج ڈالتے ہو
اس کو مٹی میں پالتا ہوں میں
اپنے ماضی سے خوف آتا ہے
اپنے سائے سے بھاگتا ہوں میں
یوں دکھاتا ہوں داغ چہرے کے
لوگ کہتے ہیں آئینہ ہوں میں
کام آسان پھر نہیں لگتا
کام جب کر کے دیکھتا ہوں میں
پہلے رہتا تھا کوئی اور یہاں
اب کسی اور کا پتہ ہوں میں
کر چکا ہے وفا مری تسلیم
یہ جو کہتا ہے بے وفا ہوں میں
مجھ کو تعمیر تھا کیا کس نے
کس کے حصے میں آرہا ہوں میں
نام لیوا نہیں ہے آج ان کا
کل جو کہتے تھے کہ خدا ہوں میں
تیرگی ختم کرنے کی کوشش
کرتا رہتا ہوں اک دیا ہوں میں

42