یہ جو پردیس کو جاتے ہیں کمانے کے لئے
گھر سے جاتے ہیں فقط گھر کو بچانے کے لئے
تیری گفتار میں جادو ہے کہ سنتا ہی رہا
حال دل ویسے میں آیا تھا سنانے کے لئے
یار کیسا یہ شکاری ہے کہ دھوکہ دے کر
مچھلیاں روز پکڑتا ہے جو کھانے کے لئے
نیکیاں لاکھ کریں کچھ بھی نہ ہوگا حاصل
کرتے رہتے ہیں جو احسان جتانے کے لیۓ
دام روٹی کا بھی گرشہر میں بڑھ جائے گا
کچھ نہ پاؤ گے غریبوں یہاں کھانے کے لئے
زخم اچھے ہوں مگر سب نہ ہو اچھے یا رب
ایک دو زخم تو رہ جائیں دکھانے کے لئے
سن لئے شعر مرے داد بھی دے دی تم نے
شکریہ آپ کا یوں پیار جتانے کے لئے

41