یہ جو پردیس کو جاتے ہیں کمانے کے لئے |
گھر سے جاتے ہیں فقط گھر کو بچانے کے لئے |
تیری گفتار میں جادو ہے کہ سنتا ہی رہا |
حال دل ویسے میں آیا تھا سنانے کے لئے |
یار کیسا یہ شکاری ہے کہ دھوکہ دے کر |
مچھلیاں روز پکڑتا ہے جو کھانے کے لئے |
نیکیاں لاکھ کریں کچھ بھی نہ ہوگا حاصل |
کرتے رہتے ہیں جو احسان جتانے کے لیۓ |
دام روٹی کا بھی گرشہر میں بڑھ جائے گا |
کچھ نہ پاؤ گے غریبوں یہاں کھانے کے لئے |
زخم اچھے ہوں مگر سب نہ ہو اچھے یا رب |
ایک دو زخم تو رہ جائیں دکھانے کے لئے |
سن لئے شعر مرے داد بھی دے دی تم نے |
شکریہ آپ کا یوں پیار جتانے کے لئے |
معلومات