جیسا مجھے سمجھتے ہو ویسا نہیں ہوں میں
ہر شخص کی نگاہ میں اچھا نہیں ہوں میں
تم بھی غلط خیال میں ہو مبتلا میاں
دریا کے پاس بیٹھا ہوں پیاسا نہیں ہوں میں
ممکن ہیں مجھ سے لغزشیں کوتاہیاں گناہ
انسان ہوں حضور فرشتہ نہیں ہوں میں
کشتی بھنور میں پھنس گئی غرقاب ہو گئی
لیکن خدا کا فضل ہے ڈوبا نہیں ہوں میں
آدم سے سلسلہ ہے ابھی انتہا نہیں
اور درمیاں میں کون ہوں کیا کیا نہیں ہوں میں
دشمن سے جنگ جیت نہ پایا یہ غم نہیں
خوش ہوں کہ اپنا حوصلہ ہارا نہیں ہوں میں
کل اک بزرگ دوست نے شوخی میں یہ کہا
ازہر عمر دراز ہوں بوڑھا نہیں ہوں میں

74