جب شرارت سے صبا کی وہ رخ انور کھلا
یوں لگا جیسے فضا میں اک حسیں منظر کھلا
کام تو دشوار تھا پہلی گٹھا کا کھولنا
آدمی سارا کا سارا پھر میاں فر فر کھلا۔
  پھر تمنا میں ہماری کیا کمی رہ جائے گی۔
مل گیا گر جنت الفردوس میں اک در کھلا۔
میں نے کتنی بار اس کو کال کی امید پر
کیا خبر مل جائے کب محبوب کا نمبر کھلا۔
ہم نہیں کہتے کمینے لوگ کہتے ہیں سدا۔
لوٹ لو جسکا بھی پاؤ آپ مال و ذر کھلا۔
ان دنو بھی کی حفاظت پاک دامن ہی رہے۔
مل رہا تھا جن دنوں محبوب کا آفر کھلا۔
وو شرابی تھا اگرچہ مستقل پیتا نہ تھا۔
عام حالت میں نہیں کھلتا تھا جو پیکر کھلا۔

0
30