وہ چاہے آج بدلے گا یا ہم کو کل بدل دے گا
کہ ہم ہیں مٹی کے ہم کو وہ مٹی میں بدل دے گا
وہ اپنی نعمتیں انسان پر یوں ہی لٹاۓ گا
کہیں زم زم نکالے گا کہیں وہ گنگا جل دے گا
یہی امید کرتے ہیں سبھی ماں باپ بچوں سے
ابھی ننھا سا پودا ہے بڑا ہو گا تو پھل دے گا
قلم قرطاس پر رکھ کر یہی سوچیں غزل والے
کئی اشعار کب ہونگے مکمل کب غزل دے گا

91