حیرت سے ہمیں دیکھ نہ یوں دیکھنے والے
ہم لوگ نہیں کھاتے ہیں ذلت کے نوالے
پانی میں ہو کتنے ہمیں معلوم ہے لیکن
اب کون بھری بزم میں پگڑی کو اچھالے
آیا وہ زمانہ کے کہانی نہ چلے گی
ارشاد جو فرمائے گا وہ دے گا حوالے
یہ بھی کوئی تقسیم مساوات ہے سوچو
تاریکیاں اک اور ہیں اک اور اجالے
ہجرت ہمیں منظور نہیں اپنے چمن سے
ہمت ہے کسی میں تو ہمیں گھر سے نکالے
ابھرا تھا بڑی شان سے پھر یوں ہوا اس نے
مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے
اللہ نے بخشی ہے تجھے حسن کی دولت
صدقات لٹا ہم سے فقیروں سے دعالے
اس فعل ریاکاری سے ملتا نہیں کچھ بھی
نیکی تو میاں چاہے سمندر سی کمالے

51