سچ دکھانے کے جو حق دار نظر آتے ہیں
اب کہاں ایسے قلم کار نظر آتے ہیں
راہ میں خار بچھاۓ ہیں انھیں لوگوں نے
جو ہمیں مونس و غم خوار نظر آتے ہیں
دور حاضر کی ترقی یہ بتاتی ہے ہمیں
کچھ دنوں اور یہ اخبار نظر آتے ہیں
یہ اندھیرا ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیگا
ظلم کے جھوٹ کے بازار نظر آتے ہیں
خود نمائ تھا فقط جن کا ازل سے شیوہ
اب وہی قافلہ سالار نظر آتے ہیں
خوش مزاجی کا سلیقہ نہیں سیکھا جس نے
لوگ چہرےسے وہ بیمار نظر آتے ہیں
کام آتے ہیں برے وقت میں آسانی سے
یوں تو دشوار مرے یار نظر آتے ہیں

68