لگتا ہے مگر اتنا وہ نادان نہیں ہے
رستے سے ہٹانا اسے آسان نہیں ہے
دکھلاواہے اس شخص کا یہ شور مچانا
وہ شخص حقیقت میں پریشان نہیں ہے
اک عارضی سراے ہے دنیا کی زندگی
اس بات سے تو کوئی بھی انجان نہیں ہے
دکھ درد فقط تونے کتابوں میں پڑھے ہیں
دکھ درد کی تجھکو ابھی پہچان نہیں ہے
ہم قافیہ پیمائی کے چکر میں پڑے ہیں
معلوم ہمیں ایک بھی گردان نہیں ہے
مفہوم سمجھنا ہی اصل شۓ ہے میرے یار
بس رٹنے رٹانے کو یہ قرآن نہیں ہے

48