کیا بھروسا نہیں تم کو ۔کیا بھروسا نہیں تم کو
کہ نہ زندگی کو گنوانے کی خاطر
نہ ہی چند روز دنیا بسانے کی خاطر
نہ یہ مال و دولت کمانے کی خاطر
ہے بھیجا تمہیں آزمانے کی خاطر
کیا بھروسا نہیں تم کو ۔کیا بھروسا نہیں تم کو
کہ یہاں پر جو عزت ہے دولت ہے شہرت ہے اس پر حکومت ہے
یہ تو ذرا سی تمہارے لئے میری نعمت ہے
کیا بھروسا نہیں تم کو ۔کیا بھروسا نہیں تم کو
کہ گر تم یہاں آزمائش مکمل کرو گے
تو سمجھو کہ تم اپنی خواہش مکمل کرو گے
تو پھر سے تمہیں جنتوں کی بشارت ملے گی
جہاں سے نکالے گئے تھے وہیں پر سکونت ملے گی
یہ انعام و اکرام دنیا کا کچھ بھی نہیں ہے
وہاں تم کو پوری حکومت ملے گی
حکومت بھی ایسی کے دل پر ذہن پر خیالوں میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے
مگر اس کو یہ سب انعامات مل نہ سکیں گے میرے بندوں تم میں جو مومن نہیں ہے
کرو یاد میں نے جب تم سے لیا تھا وہ عہد الست
‌تو تم سب نے مل کر کیا تھا یہ وعدہ کہ قالو بلیٰ
مگر تم نے دنیا میں آکر مجھے بھی بھلایا شریعت بھلادی
ہے کیا اپنی اصلی حقیقت بھلا دی
کیا بھروسا نہیں تم کو ۔کیا بھروسا نہیں تم کو
کیا تم کو غافل ہے اس مال و زر نے
حقیقت نہ جانی تمہاری نظر نے
گزارا کیا ہے یہی پر تو دیکھو
ابوبکر و عثمان ،حیدر عمر نے
ہے‌ ان کے عمل کا جو معیار دیکھو
اور اپنے بھی اعمال و کردار دیکھو
ذرا غور کر لو ابھی زندگی ہے
وگرنہ وہاں صرف شرمندگی ہے
ملی ہے تمہیں یہ عبادت کی خاطر
یہ بے بندگی ہے تو شرمندگی ہے

40